Ahle Bait (as) Ki Tasleem o Raza | Farman e Waris Pak | Chiragh e Rah Book in Urdu

★★★ اہلِ بیتؑ کی تسلیم و رضا ★★★

سید وارث علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ :

★ تسلیم و رضا اہل بیت علیہم السّلام کے گھر کی چیز ہے، ہر شخص کا حصہ نہیں۔

تشریح :
تسلیم و رضا، زبان سے کہہ دینا جتنا آسان ہے مگر اس سمندر کو دل کے کوزہ میں بھرنا اتنا ہی دشوار اور کٹھن ہے۔
یہ کسب یا عادت سے نہیں ہوتا یہ وہبی چیز ہے، یہ اللہ کی خاص الخاص عنایت ہے، جس کو بخش دے۔
یہ فیض اہل بیت علیہم السّلام کو اللہ نے بخشا ہے، اس میں کسی اور کا حصہ نہیں۔
اہل بیت سے مراد سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
مولا علی شیر خدا مشکل کشا علیہ السلام۔
حضرت بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا۔
حضرت امام حسن علیہ السّلام اور
حضرت امام حسین علیہ السلام۔
جیسی بابرکت اور جلیل القدر ہستیاں ہیں اور اُنکی نیک آل و اولاد تک سلسلہ آتا ہے۔
جنہوں نے تسلیم و رضا پر زندگی شروع کی اور تسلیم و رضا پر ہی چراغِ زندگی کو گل کیا۔ کوئی اُن میں امام الاولیا،
کوئی ام الفقراء، کوئی اُن میں امام الشہداء کے القاب بابرکت سے نوازے گئے۔
تسلیم و رضا کی منزل کا جو امتحان پروردگار عالم نے لیا اور جس حسن و خوبی سے اہل بیت علیہم السّلام نے اس منزل کا امتحان دیا قلم میں یہ طاقت نہیں کہ اس کے شمہ برابر حصہ کو بھی قلم بند کر سکے۔
سچ ہے امام الانبیاء رحمت اللعالمین محبوب خدا احمد مجتبٰی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت اگر امام الاولیاء، یا ام الفقرا، یا امام الشہداء نہ ہوتے تو اور کون ہو سکتے تھے؟ اتنا بڑا ظرف اور اتنی بڑی عزت اور کسے نصیب ہو سکتی تھی؟
کہنے کو تو سب ہی تیار ہیں مگر قربانی پیش کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔
سلسلہ بتانے سے قبل اپنے فعل اور عمل کو بھی دیکھو تسلیم و رضا وہ دشوار گزار منزل ہے جہاں بڑے بڑے فقیر، ولی، قطب، ابدال، غوث، پارہ کی طرح تھرتھراتے ہیں۔
جہاں ایک چوٹ دل پر پڑی نہیں کہ اُن کی تصدیق کا پہاڑ رائی بن کر اُڑ جاتا ہے، کبھی بلندی کبھی پستی۔
جو اُن اولاد کو دفنانے کے وقت عورتوں کی طرح چلا چلا کر رونا شروع کر دیتے ہیں اور پھر راہِ حق میں سر کٹانا اور پھر اپنے ہی جسم کے ایک ایک قطرہ سے تسلیم و رضا کا امتحان دینا بہت بڑی منزل ہے۔
ہزار بار، لاکھوں بار، بلکہ کروڑوں کروڑ بار سچ ہے کہ یہ صرف اہل بیت ہی کا حق اور حصہ ہے۔ چوں کہ فقیری اہل بیت علیہم السّلام کے یہاں سے ہی شروع ہوتی ہے۔ کروڑوں میں ایک تقدیر والا ایسا فقیر ہوتا ہے جو تسلیم و رضا کی دولتِ بےپناہ سے سرفراز ہوتا ہے۔
حقیقت کی دنیا میں سب فقیر اس بات کی تمنّا اور دلی آرزو رکھتے ہیں کہ وہ روحانیت کے چراغ پر مثلِ پروانہ نثار ہو جائیں۔
مگر دس ہزار میں نو ہزار نو سو نینیانوے فقیر پروانہ کی جگہ بھنورے بن جاتے ہیں۔
جن کا ظاہر بھی کالا اور باطن بھی کالا ہی ہوتا ہے۔ لالچی بھنورا اور کسی ایسے فقیر میں کوئی فرق نہیں، جس طرح کالا بھنورا باغ باغ، پھول پھول، ڈال ڈال مارا چلتا ہے پھر بھی اس کی لالچ ختم نہیں ہوتی۔
اسی طرح کسبی فقیر شہر شہر، محلہ محلہ، گھر گھر، دولت و عزت اور بھات روٹی کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں اور ساری زندگی طرح طرح کا جھوٹ بولتے بولتے مر جاتے ہیں، مگر با مراد نہیں ہوتے۔
فقیری بےتسلیم و رضا ایک پھول ہے جس میں خوشبو نہیں، ایک لعل ہے جس میں چمک دمک اور رنگ نہیں، ایک موتی ہے جس میں خب نہیں۔

تشریح حضرت حسین وارثی رحمتہ اللہ علیہ
📚 چراغِ راہ صفحہ نمبر 72-73

ویڈیو کو دیکھنے کیلئے لنک پر کلک کریں ⁦👇🏻
———————————————————-
Ahle Bait (as) Ki Tasleem o Raza | Farman e Waris Pak | Chiragh e Rah Ke Hawale Se | By Ameer Afzaly

Leave a Comment