Poshida Khazana | Ganj e Makhfi | Kuntu Kanzan Makhfiyyan | Khwaja Banda Nawaz Gesudaraz

★★★ پوشیدہ خزانہ ★★★

حضور خواجہ بندہ نواز گیسو دراز رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ:

کاشف الغمۃ

یعنی تعریف صرف اس خدا کے لئے ہے جو غم کو اور غموں کو کھولتا یا دور کرتا ہے۔
“غم” حزن کو کہتے ہیں۔ حزن سے مراد چھوٹا عشق نہیں بلکہ اوسط عشق ہے، اوسط عشق یہ ہے کہ وہ خود اپنے ہی پر عاشق ہو۔ پس وہ اپنے غم کو کھولنے یا دور کرنے والا ہے۔
اب سمجھو کہ جب خدائے تعالیٰ پوشیدہ خزانہ تھا اور حجرۂ بالقوۃ میں تھا تو اس کی ذات میں محبت پیدا ہوئی کہ میں علیم یا جاننے والا ہوں، خبیر یا بوجھنے والا بھی ہو جاؤں۔ جاننے والا تھا، چاہا کہ بوجھنے والا بھی ہو جائے۔
تو چیزوں کو وجود میں لاکر چیزوں کو بوجھنے والا ہوگیا۔

حضرت داؤد علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے پوچھا کہ :
ائے رب تو نے خلق کو کیوں پیدا کیا؟
اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ :

میں پوشیدہ خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں پس خلق کو پیدا کیا تاکہ میں پہچانا جاؤں۔
یعنی ایک غم تھا اسی غم کو خلق کی تخلیق سے ظاہر کیا۔

داؤد علیہ السلام نے پوچھا کہ ائے پروردگار، خلق کو کس مصلحت اور کس بھید کے لئے ظاہر کیا؟
فرمایا کہ میں پوشیدہ خزانہ تھا چاہا کہ میں پہچانا جاؤں اور خود کو خود سے پہچانوں۔

خود کو “خزانہ” کہتا ہے۔
یعنی میں کئی صفات اور کئی اعتبارات کی ایک ذات ہوں۔
جمال میں رکھتا ہوں، جلال میں رکھتا ہوں، قہر مجھ سے ظاہر ہوتا ہے، مہربانی مجھ سے رونما ہوتی ہے، قدرت مجھ ہی کو، علم مجھ ہی کو، سمع مجھ ہی کو، بصر مجھ ہی کو، بڑھانے والا میں ہوں، بلند کرنے والا میں ہوں، نیکی، بدی، رنج و خوشی اور تمام لامتناہی صفات کو قائم کئے ہوئے ہوں۔
اس اعتبار سے میں نے اپنا نام “خزانہ” رکھا۔
یہ صفات مجھ میں بالقوۃ موجود تھیں۔ میں نے چاہا کہ حجرۂ قوت سے نکل کر فعل کے میدان میں آجاؤں۔ جس طرح کہ کوئی محب اپنے محبوب کو چاہتا ہے۔ اس مصلحت اور اس بھید کی بنا پر میں نے خلق کو پیدا کیا۔
اپنے غم کو خود ظاہر کیا اور خود اپنے آپ پر کھول دیا۔
یعنی سورج اور چاند کو پیدا کیا، زہرہ، مشتری، عطارد، اور زحل و مریخ کو پیدا کیا۔ اور اسی طرح دیگر بقیہ چیزوں کو بھی پیدا کیا۔ جیسے پہاڑ، درخت، چوپائے، گھوڑا، گائے، بکری، ہاتھی، شیر، چیونٹی، سانپ، بچھو، علیٰ ہٰذا القیاس تمام موجودات کو پیدا کیا۔
پس کاشف الغمه ہوا یا نہیں؟

میں نے محبوب کو ظاہر کرکے اپنا غم کھول دیا۔ یعنی دور کر دیا اور اس کی حقیقت ظاہر کردی۔ اس کا محبوب کاشف الغمہ یعنی عاشقوں کے رنج کو دور کرنے والا ہے۔
دوست ہی جانتا ہے کہ عاشق کو کیا رنج ہے اور کس چیز کا اشتیاق ہوتا ہے!
جیسے کہ حکایت خداوندی ہے کہ :
ان انْتَ وَ انْتَ انَا
یعنی میں تو ہوں اور تو میں ہوں۔
اسی غم و اشتیاق کی آئینہ دار ہے۔
پس عاشق ہی یہ جانتا ہے کہ یقیناً میں اس کا غیر نہیں ہوں۔ پھر اس کا عین کس طرح بن جاؤں؟ بات کیا ہے؟

اس معاملہ میں رنج اور رونا بہت ہے اسی لئے تو مروی ہے کہ :
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ حزن و گریہ میں رہتے تھے۔

مگر ائے دوست، جب اللہ کی مدد اور فتح آ جائے تو سارا غم دور ہو جاتا ہے۔
اس غم کا کاشف الغمه، کھولنے یا دور کرنے والا وہی ہے جب اس نے حزن و غم کو دور کر دیا، تو فرمایا کہ :
ہم نے تمہارے لئے کھلی ہوئی فتح لکھ دی۔

ائے دوست، جب تو ستر ہزار اچھے اور برے خصائل سے باہر نکل پڑے اور جب اجالے اندھیرے کے ستر خدائی پردوں سے بالاتر ہو جائے اور جب تجھ میں خلق خداوندی پیدا ہو جائے تو اس کیفیت میں تجھ سے عبودیت یعنی بندہ پن دور ہو جائے گا۔
اور تو عیشِ خداوندی کی طرح عیش میں سکون پائے گا۔
اس حال و کیفیت میں تیرا فقر پورا ہو جائے گا۔
پھر تو اسی خدا کو جلوہ فرما پائے گا اور سَقٰٮهُمۡ رَبُّهُمۡ کی شراب پیئے گا اس وقت تو جانے گا کہ تو سچائی کی بیٹھک میں عِنۡدَ مَلِيۡكٍ مُّقۡتَدِر کے تخت پر ہے۔ اس وقت تو جانے گا کہ تو سچائی کی بیٹھک میں کامل اقدار رکھنے والے مالک کے پاس كٓهٰيٰـعٓـصٓ‌ کے خلوت خانہ میں ہے۔ اور جس نے کہ میرے غم کو کھول دیا وہ باغ وصل میں تجھ سے متحد یا ایک ہو جائے گا۔
شکر کر،
اس خدا کا شکر جس نے ہم سے حزن کو دور کر دیا یعنی بشریت کا حزن۔
وہی بشریت جو تیرا وجود تھی وہی جو تیرے اور اس کے درمیان حائل تھا۔
جیسے کہ حکایت ربانی ہے کہ :
تیرا وجود ہی میرے اور تیرے درمیان پردہ ہے۔
اس وقت تُو، تو نہ ہوگا بلکہ وہ ہوگا کیونکہ خدا کے ساتھ غیر خدا نہیں رہتا۔

اسی معاملہ کے لئے بےچارہ منصور روتا تھا کہ :
خودی حائل ہے مجھ میں اور تجھ میں،
ہٹا دے اس خودی کو درمیاں سے۔
خدا محفوظ رکھے اس دوی سے۔

ائے دوست، تیرا غم جو کہ جسمانی ڈھانچہ میں بند ہے تمثل و تشکل یا عکس سازی و صورت آفرینی کے ذریعہ ظاہر ہوتا ہے۔
محمد ﷺ نے فرمایا کہ :
کاش محمدؐ کا رب محمدؐ کو نہ پیدا کرتا۔
یعنی جسمانی ڈھانچہ کے ساتھ آدمی کی شکل میں مجھ کو زمین پر نہ لاتا،
ورنہ حضور کا تاج کمال تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
اگر تمؐ نہ ہوتے تو ربوبیت ظاہر نہ ہوتی۔

آپ کی شان میں کہا گیا ہے، پس عاشق کو یہی غم ہے کہ وہ بشریت اور تشکل سے چھٹکارا چاہتا ہے۔

سلطان العارفین نے انہیں معنی میں فرمایا کہ :
بشریت ضد ہے ربوبیت کی پس جس نے بشریت کا پردہ اوڑھ لیا ربوبیت اس سے رخصت ہو گئی۔
اس غم کا کاشف الغمۃ یا غم دور کرنے والا وہی عشق، من عرف یعنی جس نے خود کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔

📚 رسالہ غوث الاعظمؓ مع شرح جواہر العشاق
از حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو درازؒ
صفحہ نمبر 29-30-31-32

ویڈیو کو دیکھنے کیلئے لنک پر کلک کریں ⁦👇🏻
———————————————————-

Poshida Khazana | Kunto Kanzan Makhfiyyan | Risala Ghous ul Azam | Jawahir ul Ushaq | Khwaja Banda Nawaz Gesudaraz | By Ameer Afzaly

Leave a Comment