But Parasti aur Khuda Parasti | Online Group Discussion Summary

——- تجزیہ نامہ ——-

16 Feb to 24 Feb 2022

سوال :

اگر ذرّے ذرّے میں خدا ہے تو پھر بُت پرستی گناہ کیوں ہے؟؟
شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت کے حوالے سے جواب دیں۔

جوابات :

1) عارف قادری صاحب

جب تک بندے کو اللہ کی معرفت حاصل نہیں ہوتی تب تک وہ کسی کی بھی پرستش کرے گناہ کبیرہ ہے۔
کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے تو کیسے ہے؟
اسی لیئے یہ گناہ میں سے ہے۔
اور اگر بندے کو اللہ کی معرفت حاصل ہو جائے اور وہ جان لے کہ اللہ زرے زرے میں کس طرح موجود ہے تو اسکے لئے گناہ نہیں ہوگا۔
یعنی جب تلک بندے کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں ہوتی تب تلک اسکا ہر عبادت بت پرستی ہے۔

ان سب باتوں کو سمجھنے کے لئے مُرشد کامل کی صحبت نہایت ضروری ہے۔

پیران پیر سرکار عبد القادر جیلانی محبوب سبحانی رحمتہ اللہ علیہ
اپنے خطبات میں ارشاد فرماتے ہیں کہ
جسے اللہ کی پہچان ہو جائے،
جسے اللہ کی معرفت حاصل ہو جائے،
جسے اللہ کا قرب حاصل ہو جائے اسکے لیئے عبادت کرنا بھی شرک ہے۔
اور زبان سے اللہ کا نام لینا بھی شرک ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کلمہ طیبہ پیش کیا ہے
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اسکے ظاہری معنی کچھ بھی ہوں لیکن اس کے باطنی اور حقیقت کے معنی میں جب غور کریں گے تو آپکو زرے زرے خدا کو جلوہ گری نظر آئے گی۔
اسکا باطنی معنی یہ ہے
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
یعنی نہیں خالق مخلوق کا غیر اور نہیں مخلوق خالق کا غیر
محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے خوبصورت جمال ہیں۔

اور صوفیاء کرام کا فرمان ہے کہ
مخلوق کی خدمت ہی خالق کی عبادت ہے۔
کیونکہ صوفیاء کرام ہر مخلوق میں بلکہ زرے زرے میں خدا کا ظہور دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔
جدھر بھی دیکھو ہر سمت میرا ہی جلوہ ہے۔
اسی لیئے بزرگانِ دین ہر سمت اس رب کا جلوہ دیکھتے ہیں۔

شاعر کہتا ہے
‏میں زنجیر مکان و لا مکانی توڑ آیا ہوں۔
جمال یار کی خاطر میں جنت چھوڑ آیا ہوں۔
تمہارا در ہی کافی ہے میری سجدہ ریزی کو،
بتوں کو توڑ آیا ہوں خدا کو چھوڑ آیا ہوں۔

یعنی کہ اصل مزا مُرشد کی دیدار میں ہے۔

مزید شاعر کہتا ہے
جہاں تو ہے وہاں میں ہوں۔
جہاں میں ہوں وہاں تو ہے۔
ہٹا دے میں اور تو کا پردہ،
ہر جگہ تو ہی تو ہے۔

جب بندہ کے نزدیک ان سب اسرار و رموز کا خلاصہ ہوتا ہے، اسکی حقیقت جب اس پر آشکار ہو جاتی ہے تب جا کر وہ راہ طریقت میں عمل پیرا ہوتا ہے۔
جب تلک بندہ ان سب باتوں کو نہیں جانتا اس کے نزدیک بت پرستی گناہ ہے بلکہ گناہ کبیرہ ہے۔
حقیقت کو سمجھے بغیر بت پرستی اور حق پرستی میں فرق کرنا بہت مشکل ہے۔
———————————————————-

2) ڈاکٹر شبانہ وارثی صاحبہ

زرے زرے میں خدا ہے، حق ہے۔
مگر جس میں نور ظاہر ہو جاتا ہے اسی کی پوجا ہے۔۔
اور وہ کہتا ہے،
شکل بشر ہی شکل خدا ہے یعنی بشر میں ہی وہ پر نور ظاہر ہوتا ہے۔
یعنی جس بشر میں کو ظاہر ہو جاتا ہے اسی کی پوجا کی جاتی ہے۔
———————————————————-

3) ظہیر عباس قادری صاحب

تیرے چھپنے سے پڑے ہیں مندر وہ مسجد کے جھگڑے،
تو اگر پردہ اٹھا دے تو تو ہی تو ہو جائے۔

خواجہ شفیق بلخی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آیا اور کہا اے شیخ مجھکو توحید سمجھایئے۔
خواجہ صاحب نے اس سے گڑ منگوائے۔
جب وہ لے کر آیا تو آپ نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟
اس نے کہا یہ گڑ ہے۔
خواجہ صاحب نے اس سے کہا کہ اس گڑ سے صورتیں بناؤ مورتیاں بناؤ
یعنی گھوڑا بلی بیل عورت مرد آدمی درخت پہاڑ وغیرہ وغیرہ یہ سارے کے سارے صورتیں بناؤ۔
آپ کے کہنے پر اس نے گڑ سے مختلف صورتیں بنائی۔
خواجہ صاحب نے اس کو وہ شکلیں وہ مورتیاں وہ بت ایک ایک بتلا کر اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟
اس نے جواب دیا یہ بیل ہیں یہ بلی ہے یہ عورت ہے یہ مرد ہے یہ درخت ہے۔
تو پھر خواجہ صاحب نے میں نے ان سب کو توڑ کر ایک کر دیا اور جب ایک کر دیا تو اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟
اس نے جواب دیا یہ گڑ ہے۔
خواجہ صاحب نے اس سے کہا یہی توحید ہے۔
خواجہ صاحب نے اس سے کہا یہی توحید ہے۔

تو مثل سیاہی ہے حرف ہوں میں،
تو آب بقا اور برف ہوں میں۔
گر حرف مٹے اور برف گلے تو اور نہیں میں اور نہیں۔

ذات اللہ اکبر کو سمجھنے کے لئے اس طرح سے دیکھیں۔

* جب مرد، عورت، بچے، بوڑھے، ہجڑے وغیرہ کو ہم ایک دائرے میں رکھ کر اس ذات کا نام لیتے ہیں تو اسے انسان کہتے ہیں۔

* جب سارے جانور جیسے کتا، بلی، گھوڑا، اونٹ، گدھا، شیر، ہاتھی، چیل، کوا، سانپ، مچھلی، طوطا، مینا، چرند پرند وغیرہ کو ایک دائرے میں رکھ کر اس ذات کا نام لیتے ہیں تو اسے حیوانات کہتے ہیں۔

* جب سارے درخت، پیڑ پودھے، گھاس پھوس، پھل پھول وغیرہ کو ایک دائرے میں رکھ کر اس ذات کا نام لیتے ہیں تو اسے نباتات کہتے ہیں۔

* جب جھیل، تالاب، ندی، پہاڑ، چٹان، جزیرا، میدان، ریگستان، سونا، چاندی، لکڑی، لوہا، پتھر و تمام معدنیات اور تمامی بےجان شئے سمندر وغیرہ کو ایک دائرے میں رکھ کر اس ذات کا نام لیتے ہیں تو اسے جمادات کہتے ہیں۔

* جب انسان، حیوان، نباتات و تمامی جمادات، چاند، سورج، ستارے، سیارے وغیرہ کو ایک ساتھ پکارا جائے تو اسے موجودات کہتے ہیں۔

* اور جب تمامی مخلوقات و موجودات ظاہر و باطن جہاں تک انسان کی پہنچ ہے اور جہاں ابھی بھی پہنچ نہیں ہو پائی ہے، جس مخلوق کی جانکاری ہمیں ہے اور جس مخلوق کی جانکاری ابھی نہیں ہو پائی ہے غرض کہ سبھی کو ایک ساتھ ملا کر اس ذات کو دیکھا جائے تو وہ سب سے بڑی ذات، ذاتِ اکبر کہلائے گا۔
اور وہ اللہ اکبر ہوگا۔

تو اسی ذاتِ اکبر میں انسان اشرف المخلوقات ہے۔

جیسے ایک بیج سے ایک پودھا نکلتا ہے، وہ پودھا ایک ہے۔
پھر اس پودھے میں دو پتیاں ہوتی ہے۔ دو پتیوں سے چار پتیاں ہوتی ہے۔
چار سے بےشمار شاخیں اور ٹہنیاں و پتیاں ہو جاتی ہے۔
پس اس تخمِ حقیقی سے ایک شجر
پتیوں، شاخوں و ٹہنیوں کی خلقت بن گئی۔
پھر اسی خلقت یعنی ٹہنیوں میں پھول اور پھولوں میں پھل کا ظہور ہوتا ہے جو شجر کی خلقت میں اشرف ہے، کیونکہ پھل کے اندر وہی تخم وہی بیج پوشیدہ ہے جس بیج سے شجر کی کائنات تخلیق ہوئی ہے۔
وہ بیج اسی اشرف المخلوقات پھل میں موجود ہے۔
چونکہ وہ بیج نظر نہیں آتا مٹی میں پوشیدہ رہتا ہے اسکا مظہر ایک پودھا دیکھا جاتا ہے اور انتہا میں وہی بیج پھل میں پوشیدہ رہتا ہے۔
یعنی تخم سے ثمر تک یعنی ابتدا سے انتہا تک شجر کی پوری خلقت با شانِ توحید ہے، با شانِ یکتائی ہے۔

اسی طرح خدا مثل تخم ہے، جسکا مظہر مخلوق ہے۔ اور انسان اشرف المخلوقات ہے۔ جیسے ثمر میں اشرف شجر ہے۔
اور اسی طرح انسان کے اندر خدا موجود ہے جس طرح ثمر کے اندر تخم موجود ہوتا ہے۔

بیج کہتا ہے کہ بیج کی جلوہ گری سے شجر کی خلقت ہے۔
اور خدا کہتا ہے کہ خدا کی جلوہ گری سے کائنات کی خلقت ہے۔

بیج کہتا ہے کہ شجر کی خلقت کا اوّل، آخر، ظاہر، باطن بیج ہی ہے۔
اور خدا کہتا ہے کہ خلقت کا اوّل، آخر، ظاہر، باطن خدا ہے۔

بیج کہتا ہے کہ شجر کی خلقت میں ثمر افضل ہے۔ جسکی شہ رگ سے قریب بیج ہے۔
اور خدا کہتا ہے کہ خلقت میں انسان افضل یعنی اشرف ہے جس کی شہ رگ سے قریب تر خدا ہے۔
جیسے بیج کا غیر ثمر اور شجر نہیں۔
ویسے ہی خدا کا غیر انسان اور مخلوق نہیں۔

اسی تقرب و یکتائی کو توحید خداوندی کہتے ہیں جہاں غیریت کی گنجائش نہیں۔

وہ ذاتِ بیج جس سے شجر پیدا ہوا پھر وہی ذاتِ بیج پھل کے ذریعے اندر موجود ہے۔
اور وہ ذاتِ خدا جس سے خلقت بنی پھر وہ ذاتِ انسان کے اندر موجود ہے۔

نہ ہوتی گر خودی مجھ میں جو تو تھا وہی میں تھا،
یہ پردہ کس لیئے ڈالا ہے یا رب درمیان تونے۔

کسی میٹریل کی بنائی ہوئی تصویر کو بت کہا جاتا یا مورتی کہا جاتا ہے۔
جس کا کوئی کریکٹر نہیں ہوتا۔
اور جسکا کوئی کریکٹر نہیں کوئی کردار نہیں اسکی پرستش کرنا کچھ کام کا نہیں ہے۔
ہاں جن کے ناموں کے بت ہیں وہ بڑے احترام والے ہوتے ہیں، اُنکے ناموں سے اُنکے بزرگی، اُنکا سبق، انکی تعلیم، اُن کا کردار ظاہر ہوتا ہے۔
ہر شخص اگر اس بت پرستی کے بدلے اگر اُنکے کردار اپنا لے تو وہ شخص اپنا اصل مقام حاصل کر لیتا ہے۔
لیکن جو شخص بنا کریکٹر کے بت کی پرستش کریگا تو وہ خود بھی ایک بت بن جاتا ہے۔ اور
جو شخص بت پرستی میں پھنس کر خود ایک بت بن گیا ہو، اگر وہ
اُن بتوں کے ناموں والوں کے کردار، اُنکے سبق، اُنکی تعلیمات کی پستش کر لے تو وہ بت پرستی نہیں بلکہ خدا پرستی بن جاتی ہے۔
خدا کے طرف لے جانے والی تعلیم،
خدا کے طرف لے جانے والا سبق
اس اور عمل کرنا، اس اور چلنا اس اور کاربند رہنا ہی خدا پرستی ہے۔

حضرت شمع نیازی صاحب فرماتے ہیں کہ
شوالے میں جو کالا پتھر رکھا ہوا ہے اسکا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے برے کاموں کو چھوڑتے ہیں۔
جسکو عربی میں نہی عن المنکر کہتے ہیں۔
اور جو پریکرما وہ لوگ کرتے ہیں طواف کی طرح گھومتے ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم گواہی دیتے ہیں کی برے کاموں کو چھوڑ دیا۔

مورتی پوجنے کا مقصد یہ ہے ہم اگلے بزرگوں کے نیک کردار پر عمل کر رہے ہیں۔ جس کو عربی میں امر باالمعروف کہتے ہیں۔

بس نہی عن المنکر اور امر باالمعروف کے لئے کعبہ بنایا گیا۔
اور اسی لئے شیوالہ اور مندروں دی ستھاپنا کی گئی۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
لَقَدْ خَلَقْنَا ٱلْإِنسَٰنَ فِىٓ أَحْسَنِ تَقْوِيمٍۢ
یعنی ہم نے انسان کو اچھی تقویم سے بنایا ہے۔
اگر انسان اس اچھی تقویم سے ہٹ جائے اور اپنے خدا کو پھر اپنے سے دور کہیں آسمان پر سمجھنے لگے گویا وہ سب سے نیچے درجے میں پہنچ گیا۔
یعنی کہ اگر کوئی احسن تقویم سے ہٹے گا تو وہ سب سے نچلے درجے میں پہنچے گا۔
اسلئے خدائے تعالیٰ نے فرمایا
ثُـمَّ رَدَدْنَاهُ اَسْفَلَ سَافِلِيْنَ۔

انسان اگر خدا کو جانتا ہے تو اس کا ہر قدم، اس کا ہر کام، اسکی ہر پرستش، اسکی ہر عبادت خدا پرستی ہے۔
اور اگر انسان خدا کو نہیں جانتا ہے تو اسکا ہر کام بت پرستی ہے، اس کی پرستش اسکی ہر عبادت بت پرستی ہے۔

مزید کہتے ہیں۔
جو ہر وقت آپ سے ساتھ ہو اسے کسی مندر، مسجد، گرجا، گردورا وغیرہ میں جا کر تلاش کرنا اسکی ذات اور اپنی کوششوں کی توہین ہے۔

سنت کبیر کہتے ہیں
پانی میں مچھلی پیاسی ہے۔
اگر آتما گیان یعنی خود شناسی نہ ہو تو متھرا جاؤ یا کاشی، چاہے کعبہ جاؤ یا کلیشا یا چاہے کہیں بھی جاؤ یہ دنیا جھوٹھی ہی نظر آئےگی۔
بھگوان صرف تیرتھ ستھانو میں نہیں انسان کے وجود میں ہے۔

خدا تن کی مسجد اور مندر میں ہے۔ تن کی مسجد اور مندر کو آباد کرنا چاہئے۔ اگر تن کی مسجد اور مندر برباد ہے تو زمین پر لاکھ مسجدیں بنا لو، لاکھ مندریں بنا لو بےجان رکوع اور بے حضور ہزار سجدے کر لو، ساری رات بھجن کرتن کر لو۔
نہ خدا ملتا ہے، نہ بھگوان کا دیدار ہوتا ہے۔
کوئی احد کہتا ہے، کوئی انحد کہتا ہے، ہےعرفان اور اگیانی لوگ آپس میں جھگڑتے ہیں۔

ایک ہی ماتا ایک پتا ہے سب اس کی سنتان
ایک ہی کل کے دیپ ہیں سارے دنیا کے انسان
مندر مسجد کے جھگڑوں میں خدا ملا نا بھگوان
من مندر میں دیپ جلے گا لے گرو سے گیان

مزید کہتے ہیں،
غوث ااعظم دستگیر فرماتے ہیں
جسے خدا کی پہچان ہو جاتی ہے اُسے عبادت تو دور کی بات ہے عبادت کا خیال کرنا بھی شرک ہے۔
یعنی کہ اللہ کی پہچان کے بعد کسی نے اگر عبادت کیا یا کسی بت کی پوجا کا خیال کیا تو وہ مشرک ہو جائےگا۔
کیونکہ اُسنے دوئی قائم کرنے کا ارادہ کیا۔
اور دوئی عین شرک ہے۔ اور شرک عین کفر ہے۔ اور ہے گناہ ہے۔

مزید انہوں نہ حضرت شمع نیازی صاحب کے حوالے سے معرفت الٰہی کے راز اور بت پرستی کے تعلق سے گفتگو کی۔
———————————————————-

4) احسان فرید صاحب

اللہ نور السمٰوات و الارض۔
جیسے کہ ریت کا ذرہ وجود ہے اور اس میں جو چمک ہے وہ اسکا ظہور ہے۔
ہمارے وجود میں ہی غور کریں کہ
جیسے ہمارے آنکھ کا وجود ہے اور اس میں نظر آنا اس کا ظہور ہے۔
اور جیسے کان کا وجود ہے اور سماعت اُسکا ظہور ہے۔
یعنی ہر ایک چیز خدائے لا شریک کی وحدانیت بیان کرتی ہے۔
اور جب بت بنا دیا جاتا ہے تو یو خدائے تعالیٰ کے وحدانیت سے قاصر ہو جاتا ہے۔
اس لئے بت پرستی گناہ ہے، کیوں کہ بت پرستی میں خدائے واحد لاشریک کو قید کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

من عرفہ نفسہ فقد عرفہ ربہ
جس نے اپنے نفس کو پہچانا اُسنے اپنے رب کو پہچانا۔
جب تک انسان اپنے آپ کی پہچان نہ کرے تب تک اسے کسی چیز میں رب کا ظہور نظر نہیں آتا۔
جب تک پہچان نہ تب تک کوئی چیز نظر نہیں آتی، خواہ وہ چیز سامنے ہی کیوں نہ ہو کیوں کہ وہ پہچانتا ہی نہیں ہے۔ اسی لیئے جب تک وہ رب کو نہیں پہچانتا اسے زرے زرے میں رب کا ظہور بھی نظر نہیں آتا۔
اور پہچان کے لئے ضروری ہے رہبر کا ہونا۔ جب تک رہبر نہ ہو تب تک پہچان ہونا محال ہے۔
اور بہت ضروری ہے کہ عشق میں ثابت قدم رہا جائے، تب ہی راز افشا ہوتے ہیں۔
———————————————————-

5) امتیاز صاحب :

اس سوال میں ہی جواب چھپا ہوا ہے، کیونکہ جو نہیں مانتا کہ زرے زرے میں خدا ہے اصل میں وہی بت پرستی کرتا ہے۔

مولانا رومی فرماتے ہیں کہ
اصل بت پرستی دراصل نفس پرستی ہے۔

بیشک خدا زرے زرے میں ہے لیکن وہ انسان کے دل میں بستا ہے۔
اور انسان اس خدا کو مندر مسجد اور بتوں میں تلاش کرتا ہے۔ اسی لیئے وہ جانے انجانے میں بت پرستی کرتا ہے۔
جس دن انسان اپنے اندر موجود خدا کی پہچان کر لے گا اس دن وہ حق پرستی کرےگا۔
———————————————————-

6) احمد سبحانی صاحب :

بیشک اللہ زرے زرے میں موجود ہے، لیکن اس کی پہچان اور اسکی دیدار کے لئے انسان کو دوئی سے باہر نکلنا ہوگا دوئی کو مٹانا ہوتا ہے۔
اللہ وحدہ لاشریک کو تسلیم کرنے کے بعد کسی اور چیز کا وجود تسلیم کیا جائے تو یہ شرک ہے۔
اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے :
فَاَیۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجۡہُ اللّٰہِ
تم جدھر بھی دیکھو گے، میرا ہی نور کا ظہور دیکھو گے۔
یعنی جس نے جس چیز کو دیکھا اس نے وجہ اللہ کو دیکھا۔ لیکن
جب تک اللہ کی پہچان نہیں، زرے زرے میں ہم اللہ کو دیکھ نہیں سکتے۔
اور جب آدمی انسان بن جاتا ہے تو معرفتِ الٰہی کا حق دار ہو جاتا ہے۔

بیشک زرے زرے میں خدا ہے، اور خدا کی پہچان کے لئے مُرشد کامل کی تربیت اور صحبت بہت ضروری ہے۔

بت پرستی گناہ اس لئے ہے کیونکہ عبادت صرف اور صرف اس وحدہٗ لاشریک کی ہے۔ جس طرح سے اللہ سبحانہ وتعالی نے جب آدم میں اپنا امر یعنی روح پھونکا تب تمام ملائیکہ کو حکم ہوا کہ آدم کو سجدہ کریں۔ روح پھونکنے سے پہلے آدم کے پتلے کو سجدہ نہیں تھا۔
اسی لئے بت پرستی گناہ ہے کہ اس میں اللہ کا امر موجود نہیں ہوتا۔

ہم میں تم اور تم میں ہم گم ہو گئے
ہوتے ہوتے ایک ہم تم ہو گئے
بن گئے منزل و مقصود آپ
جو تلاشِ یار میں گم ہو گئے۔

یہی حسن و عشق کا راز ہے
کوئی راز اسکے سوا نہیں
اگر خدا نہیں تو تُو نہیں
اور تو نہیں تو خدا نہیں۔

اللہ اللہ کرتے کرتے ھو نظر آیا مجھے
ھو میں جب میں گم ہوا تو تُو نظر آیا مجھے

کوئی پوچھے حقیقت میرے کفر کی،
میں نے جس بت کو پوجا خدا کر دیا۔
———————————————————-

7) نصیر احمد قادری سروری صاحب :

بت پرستی یعنی ایک بےجان چیز کی پرستش، جو نہ کوئی فائدہ اور نہ ہے کوئی نقصان پہنچا سکتی ہے۔

قرآن کریم کے مطابق اپنے خواہشات کو معبود کہا گیا ہے، یعنی بت کہتے ہیں۔
اور حقیقت میں اپنے اندر کے خواہشات کی پرستش ہے۔
جسے مسلمان خواہشات کے طور پر پرستش کرتے ہیں، اور ہندو انہیں خواہشات کو بت بنا کر بت پرستی کرتے ہیں۔ حقیقتاً دونوں ہی خواہشات کی پرستش کر رہے ہوتے ہیں۔
دونوں نے اپنے خواہشات کو معبود بنایا ہوتا ہے۔
قرآن مجید آیت مبارکہ ہے
سورہ فرقان آیت 43
ترجمہ : کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشات ہی کو اپنا خدا بنالیا ہے کیا آپ اس کی بھی ذمہ داری لینے کے لئے تیار ہیں؟

لوگوں میں مختلف قسم کے خواہشات ہوتے ہیں۔
جیسے رزق، دولت، عزت، شہرت، طاقت، علم، صحت اور تندرستی وغیرہ وغیرہ۔

ہندو لوگ اچھی صحت اور خوش حالی عطا کرنے والا سمجھ کر देव धन्वन्तरि کا بت بنا کر اسکی پرستش کرتے ہیں۔

اور دولت پانے کے لئے देवी लक्ष्मी کی پرستش کرتے ہیں۔

اور رزق کے لئے देवी अन्नपूर्णेश्वरी پرستش کرتے ہیں۔
طاقت و قوت کے لئے देवी शक्ति پرستش کرتے ہیں۔
علم و حکمت کے لئے देवी सरस्वती پرستش کرتے ہیں۔
کامیابی، دولت اور حکمت کے لئے देव गणेश پرستش کرتے ہیں۔
اور بھی بہت کچھ ہیں

جبکہ مسلمان بنا بت پرستی کے وہ بھی اچھی صحت، خوش حالی، طاقت و قوت، دولت، علم و حکمت اور کامیابی جیسے خواہشات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
تو ہے بھی بت پرستی ہی ہوتی ہے۔

ہندو اور مسلمان دونوں ایک ہی چیز مانگ رہے ہوتے ہیں، لیکن فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ ہندو بت بنا کر اس سے مانگتے ہیں اور مسلمان اسکی خواہشات کی بت پرستی کرتے ہیں۔
یہ سب گمراہ اہم اور یہ گناہ کرتے ہیں۔

فرمان باری تعالیٰ ہے سورہ فرقان آیت 44

ترجمہ : کیا آپ کا خیال یہ ہے کہ ان کی اکثریت کچھ سنتی اور سمجھتی ہے ہرگز نہیں یہ سب جانوروں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی کچھ زیادہ ہی گم راہ ہیں۔

حالانکہ، خواہشات اور بت کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی اور نہ ہی اس میں روح ہوتی ہے، اور نہ ہی اس میں نور ہوتا ہے۔
بلکہ یہ ظلمات ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے قرآن مجید سورہ جاثیہ آیت 23
ترجمہ : کیا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش ہی کو خدا بنالیا ہے اور خدا نے اسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگادی ہے اور اس کی آنکھ پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور خدا کے بعد کون ہدایت کرسکتا ہے کیا تم اتنا بھی غور نہیں کرتے ہو۔

جو کوئی بھی اپنے آپ کو خدا کی طرف متوجہ کرتا ہے، تقویٰ اختیار کرتا ہے، اور کائنات اور اپنے اندر غور و فکر کرتا ہے۔
تو خدا کے طرف سے اُسے ہدایت ملتی ہے اور اسے کامل پیر مل جاتے ہیں، اور وہ مُرشد کامل پھر اسے ظلمات سے نور کی طرف آنے میں اس کی پوری مدد کرتے ہیں۔
———————————————————-

8) محمد مشافق نواز صاحب :

بیشک اللہ زرے زرے میں ہے، اور
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
کنت کنزن مخفیا
یعنی کہ اللہ ایک پوشیدہ خزانہ تھا پس اس نے چاہا کہ پہچانا جاؤں تو پیدا کیا مخلوق کو۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ کی معرفت ہے۔

اور حدیث شریف میں جیسا کہ آیا ہے۔
من عرفہ نفسہ فقد عرفہ ربہ
جس نے اپنی ذات، یعنی جو خدا کا ہے اور جس کو سارے فرشتوں نے سجدہ کیا تھا اس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
سورہ بنی اسرائیل آیت 72
جو اس دنیا میں معرفت حق سے اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی رہے گا۔

دوسرے جگہ فرمان الٰہی ہے۔

سورہ ذاتیات آیت 21
اور ہم تمہارے اندر موجود ہیں تم مجھے کیوں نہیں دیکھتے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
میں آسمان و زمین میں نہیں سماتا لیکن بندہ مومن کے دل میں سما جاتا ہوں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے فرمایا
مومن کا قلب اللہ کا عرش ہے۔

ان تمام تر باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ
خدا کی ذات خود میں ہی موجود ہے۔
اس لیئے اللہ شرک کو معاف نہیں کرے گا، کیونکہ اللہ ایک ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے۔
———————————————————-

9) احمد علی شاہ قادری چشتی صاحب :

قرآن کی آیت میں اس کا جواب موجود ہے۔
“اللهُ نورُ السماواتِ و الأرضِ”
یعنی اللہ نور ہے آسمان اور زمین کا۔

“إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ”
یعنی بیشک اللہ ہر شئے پر قادر ہے۔

ان دونوں آیتوں پر غور کریں
اللہ خود کو نور بھی کہہ رہا ہے اور یہ بھی کہہ رہا کہ اس پر قادر بھی ہوں۔
نور کا مطلب ہے Energy طاقت۔
اور قادر یعنی قدرت رکھنے والا۔
ہر شئے میں ایک قدرتی طاقت ہے جو ایک دوسرے سے الگ الگ پائی جاتی ہے۔

جیسے کہ مٹی میں ہریالی پیدا کرنے کی قدرت ہے۔ جو کہ پتھر میں نہیں اور
پتھر میں سختی اور مضبوطی ہے جو کہ مٹی میں نہیں۔
یہ سب اس اللہ کی صفت ہے جو اس کی قدرت و طاقت کو بیان کر رہے ہیں۔
یعنی 99 اسماء الحسنہ اس کے صفاتی نام ہیں۔ اور 99 صفات کا مجمع ذات ہے۔

اب رہی بات بت کی تک تو بت چاہے
مٹی کا ہو یا پتھر کا ہو یا چاہے کسی بھی دھاتو کا بنا ہو اس میں اللہ کا کوئی ایک صفت کا ہی ظہور ہوگا۔ اور کسی ایک صفت کے ظہور سے وہ خدا نہیں ہو سکتا۔

اور ایک صفت کو خدا سمجھ کر جو اس کی پرستش کرے تو اُسنے باقی صفتوں کا انکار کیا یعنی اس نے کفر کیا یعنی اس نے گناہ کیا۔ یہی بت پرستی ہے اور حق پرستی ذات کی پرستش ہے۔
———————————————————-

10) سیف اللہ صاحب :

بت پرستی دو طرح کی ہوتی ہے۔
۱) ظاہری بت پرستی
۲) باطنی بت پرستی

ظاہری بت پرستی یعنی کوئی بےجان چیز کو بت بنا کر پوجنا اور اس بت کو ہی خدا مان لینا۔ اللہ کے نزدیک ایسا کرنے والے مشرک ہیں۔

باطنی بت پرستی یعنی اپنے اندر کے موجود 360 خواہشات کے تابع ہو جانا۔
یہ خواہشات بھی بت ہی ہے اور ہر کوئی اس کی پرستش کر رہا ہے، مگر خود اس سے غافل ہے۔ جب تک کوئی جان نہیں لیتا کہ میں کون ہوں تب تک وہ کسی نہ کسی بت کی پرستش کرتا ہی رہتا ہے۔

اگر ہمیں صرف خدا کی پرستش کرنی ہے تو ہمیں کامل مُرشد کی تلاش کرنی ہوگی،
سب کچھ پیر و مرشد کی نظر سے عطا ہوتا ہے۔ مُرشد ہی دوئی سے نکال کر ایک خدا کی پرستش کرواتا ہے، خدا کی پہچان کرا دیتا ہے، رب سے ملا دیتا ہے۔ پھر اس کے بعد طالب کو زرے زرے میں خدا کا دیدار ہونے لگتا ہے۔
———————————————————-

11) عاشق شہروردی صاحب :

حضرت شمع نیازی فرماتے ہیں،
بت پرستی کا کوئی خاص علاقہ یا کوئی مخصوص مقام نہیں اور نہ ہی بت پرستی کی اشاعت اور نہ کوئی بت پرستی کا پیغمبر ہوتا ہے، بلکہ مذہبی کھنڈروں سے بت پرستی شروع ہوتی ہے یعنی جہاں خدا پرستی ہوا کرتی ہے اسی خدا پرستی کے پیٹ سے بت پرستی پیدا ہو جاتی ہے۔
مثال کے طور پر یوں سمجھیں کہ اگلے زمانوں میں جب لوگ کف و شرک میں پھنس کر بت پرستی کرنے لگتے تھے تب خدا کا کوئی پیغمبر ظاہر ہو کر اس بت پرستی کو ختم کر کے پھر خدا پرستی قائم کر دیتا تھا اور اس پیغمبر کے بعد رفتہ رفتہ پھر بت پرستی ہونے لگتی تھی۔
گویا کہ بت پرستی مٹانے کے لئے پیغمبران ہوتے رہے جو خدا پرستی قائم کرتے رہے اور پیغمر کے بعد پھر بت پرستی ہونے لگی تھی۔
———————————————————-

12) مزمل منیر صاحب :

بت پرستی کی حقیقت یہ تھی کہ اُن شخصیات کی جن کی مورتی ہوتی ہے اُنکے کردار کو اپنے اندر اتارنا تھا نہ کہ صرف ظاہری طور سے اُنکی آرتی کی جاتی۔
اور بت اُسے کہتے ہیں جو اپنے آپ کو تبدیل نہ کر سکے۔

اب آیئے دیکھتے ہیں
شریعت کے حوالے سے تو شریعت میں اس سوال کا کوئی جواب نہیں۔
طریقت کے حوالے سے، تو طریقت خود ایک بت پرستی ہے۔
حقیقت میں اس کا جواب ہے کہ جب وحدت الوجود کو اچھی طرح سے سمجھیں گے تو اس کا مکمل جواب ملے گا۔ اور وحدت الوجود کو صرف لفظوں سے نہیں سمجھا جا سکتا۔
جب سالک پر حالت مراقبہ میں تجلیات نازل ہوتی ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ زرے زرے خدا ہے۔

بت پرستی دراصل خود پرستی ہے۔

جب کوئی خدا کو زرے زرے میں پا لیتا ہے تو اُسکے لئے کوئی گناہ باقی نہیں رہتا۔ یہ ایک راز اور جب تک یہ راز فاش نہیں ہوتا تب یہ کہنا کہ زرے زرے میں خدا ہے، یہ صرف ایک جملہ ہے اور کچھ نہیں۔
صوفیاء کرام و مرشد کامل اس كا مشاہدہ کرواتے ہیں۔

بیشک خدا ہر طرف ہے لیکن خدا کا امر صرف حضرت انسان میں ہے۔
اور بات جب پرستش کی آتی ہے تو پرستش صرف خدا کی ہوتی ہے اُسکے امر کی ہوتی ہے۔
اس لیئے پرستش اللہ اور رسول کی ہوتی ہے، نائب رسول کی ہوتی ہے، پیر و مرشد کی ہوتی ہے۔
ان کو چھوڑ کر کسی اور کی پرستش باطل پرستی ہے۔

ان باتوں کو سمجھنے کے لئے ذات اور صفات کا علم ہونا بہت ضروری ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ
حق میں بھی حق ہے اور باطل میں بھی حق ہی ہے۔ لیکن ہمیں حق کی جانب ہونا ہے اور باطل کی مخالفت کرنا ہے۔

البتہ یہ سب باتوں کی عام انسان نہیں سمجھ سکتے اور گمراہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
———————————————————-

13) شیخ معراج صاحب :

پہلے ہمیں جاننا ہوگا کہ اللہ زرے زرے میں موجود کس طرح سے ہے۔
یعنی اس کی پہچان ہونا ضروری ہے۔
اور جب تک معرفت نہیں ہوتی تو سجدے میں جاکر بھی انسان شرک کرتا ہے۔ حدیثوں سے واضح ہے۔

دراصل ایک ذاتی نور ہوتا ہے اور ایک صفاتی نور ہوتا ہے۔
صفاتی نور تمام مخلوق میں پایا جاتا ہے۔ لیکن ذاتی نور صرف اشرف المخلوقات کے لئے ہے۔ لیکن وہ سب کو عطا نہیں ہوتا۔ وہ پیر و مرشد عطا کرتے ہیں۔
جو انسان اسم ذات اللہ کی ضرب لگاتا ہے اپنے کو فنا کرتا ہے تب وہ ذاتی نور اُسے عطا کیا جاتا ہے۔

مختصر یہ کہ
تمام تر مخلوق میں حتٰی کی زرے زرے میں اللہ کا صفاتی نور ہے
اور انسان اشرف المخلوقات میں کو صرف ذاتی نور ملا ہے۔
اور ذات کا صفات کو سجدہ کرنا حرام ہے کیونکہ ذات سے صفات ہے نہ کہ صفات سے ذات ہے۔ اور اسی لئے بت پرستی حرام ہے۔
جس طرح سے آدم کے بت کو فیرشوں نے سجدہ نہیں کیا بلکہ جب اس پتلے میں ذات یعنی روح ڈالا گیا تب اسکا سجدہ کرنے کہ حکم ہوا۔
ذات اور صفات کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
———————————————————-

14) سید سلیم صاحب :

پوجا صفات کی نہیں کی سکتی پوجا ذات کی ہے۔ کیونکہ آدم کے پتلے کو سجدہ نہیں کیا گیا جب اس میں روح پھونکی گئی تو سجدہ ہوا۔
اور بغیر معرفت حاصل کئے کوئی عبادت صحیح نہیں ہوگی بلکہ سب بت پرستی ہی ہوگی۔
———————————————————-

15) معراؔج افضلی :

یقیناً زرے زرے میں خود ہے۔
پوری کائنات، مخلوقات، تمام موجودات کوئی بھی خدا کا غیر نہیں۔
مگر بت پرستی گناہ ہے شریعت میں۔
طریقت میں صورت پرستی ہے اور پیر پرستی ہے۔
حقیقت میں ہر شئے میں خدا ہے۔
اور معرفت اسکی پہچان کی ضرورت ہے۔

اسی لئے کسی شاعر نے کہا ہے کہ
صنم کو کرکے سجدہ کس طرح ہو جائیگا کافر،
وہ مومن جس کو ہر شے میں خدا معلوم ہوتا ہے۔

مذکورہ محققین حضرات نے مختلف حوالے سے گفتگو کی ہے۔
اُمید ہے کہ حضرات کو اس کا جواب بہتر ڈھنگ سے مل گیا ہوگا۔

میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ
چاہے ذات ہو، صفات ہو یا مخلوقات ہو۔
سب سے بڑی بات خدا شناسی ہے۔
حق میں بھی وہی اور باطل میں بھی وہی۔
پتھر میں بھی وہی آدم میں بھی وہی۔
مگر جہاں پر اسکا نور اور تجلی ظاہر ہوا اسکی پرستش کی جاتی ہے۔
یعنی صلات و سلام اور درود محمد کے لئے ہے پتھر کے لیئے نہیں۔
یعنی جہاں پر وہ ذات حقیقی قائم مقام ہے اسی کو سجدہ اور سلام ہے۔
اور جہاں پر باطل کے پردوں میں چھپ گیا وہاں پر حکم یلغار ہے۔

مطلب صاف ہے کہ ظالم میں بھی وہی مظلوم میں بھی وہی۔
پاکی میں بھی وہی پلیدگی میں بھی وہی۔
لطافت میں بھی وہی کثافت میں بھی وہی۔

مگر ہمیں لطافت کے طرف چلنا ہے۔
ہمیں نورانیت کے طرف چلنا ہے۔
ہمیں حق کے ساتھ چلنا ہے، باطل کے ساتھ نہیں۔

ہمیں محمد اور آل محمد کے طرف رہنا ہے، دشمنانِ اہل بیت کے طرف نہیں۔
ہمیں سچائی کو پہچان کر سچائی اور محبت کا ساتھ دینا ہے، نفرت اور عداوت کے طرف نہیں جانا ہے۔

زرے زرے خدا ہے تو ہمیں اس سے کیا، ہمیں تو خالق کائنات کو سجدہ کرنا ہے اور اس خالق کائنات کے مظہر عالی شانِ محمدی کو سلام کرنا ہے۔
اور وہ جوہر ہر مخلوق میں ہر انسان میں نہیں ہوتا، بلکہ کسی خاص انسان میں ہوتا ہے۔ ہو بشریت کو پار کر چکا ہوتا ہے، فنا فی اللہ بقا بااللہ کے مقام پر ہوتا ہے، اور خدا کا آئینہ دار ہوتا ہے۔

،بشر کی شکل میں اندھوں کو کیا معلوم ہوتا ہے

یہ وہ آئینہ ہے جس میں خود خدا معلوم ہوتا ہے۔

——————– ختم شد ——————–

ویڈیو کو دیکھنے کیلئے لنک پر کلک کریں ⁦
———————————————————-
But Parasti aur Khuda Parasti | Ek Tahqiqi o Tafseeli Guftagu | By Meraj Afzaly

Leave a Comment